شکریہ اس سمندر کا جس نے بنا ویزے کے ہمارا استقبال کیا
اور شکریہ ان مچھلیوں کا جو عن قریب میرا گوشت بانٹ کھائیں گی
بنا پوچھے کہ میرا دین کیا ہے اور میری سیاسی وابستگی کس کے ساتھ ہے؟
سوشل میڈیا پر سرگرم شامی کارکنوں میں اس خط کا مضمون زیر گردش ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا سے کہ یہ خط ان شامی پناہ گزینوں میں سے ایک کی جیب میں پایا گیا جو چند روز قبل بحر روم میں ڈوب گئے اور ان کی پھولی ہوئی لاشیں سطح آپ پر نمودار ہوئیں. ان کی کشتی کئی سو غیر قانونی مہاجرین کو لے کر بحر ابیض میں سفر کر رہی تھی اور اس کی منزل یورپ کا ساحل تھا.
اب تک یہ الوداعی خط لکھنے والے کی شناخت تو نہیں ہو سکی، تاہم مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ خط اس وقت لکھا کہ جب اسے احساس ہو چلا کہ جس کشتی پہ وہ سوار ہے وہ ڈوبنے کو ہے.
البتہ سوشل میڈیا پہ سرگرم کارکنان نےاپنی والز پہ اس خبر کے ساتھ خاصی متاثر کن عبارتیں چسپاں کی ہیں، مثلا:
'مہذب دنیا کے نام ایک تحفہ!
موت سے بھاگنا چاہ رہا تھا اس لیے سمندر نے اسے اپنی اَغوش میں بھر لیا. پڑھیے ضرور! مگر اَنسو مت بہائیےگا کہ شامی مسلمانوں پر امت کے اَنسو اب خشک ہو چکے ہیں.'
اناضول خبر ایجنسی کے جانب سے جاری کردہ اس مبینہ خط کا متن ان کارکنان نے کچھ یوں نقل کیا ھے:
'ماں! میں شرمندہ ہوں کہ کشتی ڈوب رہی ہے اور میں اپنی منزل پر نا پہنچ سکا. اب میں وہ رقوم نہیں بھیج پاؤں گا جو میں نے بطور قرض لی تھیں اس سفر کےاخراجات بھرنے کے لیے!
ماں! اگر میرا لاشہ ڈھونڈنے والوں کو نہ ملے تو غم مت کرنا! اب تمہیں اس سے ملنا ہی کیا ہے؟ سوائے لاش کی منتقلی، کفن دفن اور تعزیت کے اخراجات کے!
ماں! مجھے افسوس ہے کہ جنگ شروع ہوگئ اور مجھے بھی دوسروں کی طرح سفر پر نکلنا پڑا. آپ کو تو
معلوم ہے کہ میرے تو دوسروں کی طرح بڑے بڑے خواب بھی نہ تھے! آپ تو جانتی ہیں کہ میرے خواب تو صرف تیری کولون کی تکلیف کی دوا کی ڈبیہ اور تیرے دانتوں کے علاج کی فیس ہی تھے!
ویسے اب میرے دانتوں کا رنگ سبز ہوچکا ہے، کیوں کہ ان میں سمندری گھانس پھنسی ھوئی ہے، لیکن اس کے باوجود میرے دانت ڈکٹیٹر [بشار الاسد] کے دانتوں سے تو اچھے ہی ہیں!
میری پیاری تم سے بھی معذرت کہ میں نے تمہارے لیے خیالی اَشیانہ ہی بنایا. ایک لکڑی کی خوب صورت سی جھونپڑی جیسا کہ ھم فلموں میں دیکھا کرتے تھے. ایک سادہ سا اَشیانہ کہ جو پھٹتے ڈرم بموں سے بہت دور! گروہ بندی و نسلی شناختوں سے کوسوں دور! جہاں پڑوس کی جانب سے ہمارے بارے میں اڑائی جانے والی افواہیں نہ پہنچتی ہوں!
بھائی! میں تم سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں تمہیں وہ 50 یورو ماہوار نہیں بھجوا پاؤں گا کہ جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا اور جن سے تم نے اپنی تعلیم مکمل کرنی تھی!
بہنا! مجھے معاف کر دینا کہ میں تمہیں وہ نیا فون نہی بھجوا پاؤں گا کہ جو تمہاری امیر سہیلی کے پاس ہے!
میرےپیارے گھر! میں شرمندہ ہوں کہ اب دروازے کے پیچھے اپنا کوٹ نہیں لٹکا پاؤں گا!
معذرت! اے غوطہ خوروں اور گم شدہ لوگوں کو تلاش کرنے والو! مجھے تو اس سمندر کا نام بھی نہیں پتا کہ جس میں ڈوب رہا ہوں!
مہاجرین سے متعلق عالمی ادارو! مطمئن رہنا کہ میں تم پر بھاری بوجھ نہیں بننے لگا!
شکریہ اس سمندر کا جس نے بنا ویزے کے ہمارا استقبال کیا اور شکریہ ان مچھلیوں کا جو عن قریب میرا گوشت بانٹ کھائیں گی!
میں ان نیوز چینلز کا بھی مشکور ہوں کہ جو پورے 2 دن ہر گھنٹے میں 5 منٹ مسلسل ہماری موت کی خبر نشر کریں گے!
اَپ سب کا بھی شکریہ کہ جب اَپ ہمارے مرنے کی خبر سنیں گے تو کبیدہ خاطر ہوں گے!مجھے افسوس ہے کہ میں ڈوب گیا!